(قارئین آپ کا کبھی کسی پراسرار چیز یا جن سے واسطہ پڑا ہو تو ہمیں ضرور لکھیں، چاہے بے ربط لکھیں، نوک پلک ہم خود سنوار لیں گے)
میں نے گورنمنٹ ہائی سکول ہری پور ہزارہ سے میٹرک کا امتحان سال 1948ء میں اول پوزیشن میں پاس کر لیا تھا ان دنوں صوبہ سرحد میں کوئی یو نیورسٹی نہ تھی۔ میرے (دو ہم جماعت )تاج الہٰی اور صابر شاہ بھی میٹرک میں پا س ہو گئے تھے۔ میری اور تاج الہٰی کی مادری زبان ہندکو جبکہ صابر شاہ کی مادری زبان پشتو تھی۔ ہما را میٹرک کا نتیجہ اگست 1948ءمیں آﺅٹ ہوا تھا۔ یہ بھی اتفا ق ہوا کہ ہم تینوں ہم جما عت پشاور صدر میں مال روڑ کے کنارے واقع اے جی آفس میں جو ان دنوں کمپٹرولر آفس کہلا تا تھا ( نومبر 1948 ءمیں ) چھوٹے کلرک یعنی LCD کے طور پر بھرتی ہو گئے تھے۔ پشاور میں تینوں کی رہائش وہاں الگ الگ اپنے رفقاء کے ہاں محض چند روز رہی تھی۔ کیو نکہ نومبر 1948 ء ہی میںدفتر کی بائیں طرف ایک فرلا نگ کے فاصلہ پر موجود کرائے پر ایک بالا خانہ ملنے والا تھا۔ یہ چھوٹی سی بستی توپ خانہ بازار کہلاتی تھی۔ چھوٹا سا بازار جس کے بیچ سے گذرنے والی چھوٹی پتلی سڑک تھی۔ دائیں بائیں دوکانیں تھیں۔ یہ تقریباً آدھ فرلانگ کا بازار تھا۔ پشاور کینٹ ریلوے سٹیشن سے باہر آتے ہی سامنے شروع ہو کر آگے کو جا تی ہوئی سڑک مال روڑ کو کراس کرکے ذرا آگے جاکر تو پ خانہ بازار سے آتی پتلی چھوٹی سڑک سے اس کا کراس ہوتا۔ اس کراسنگ پر آتی ہوئی ریلوے اسٹیشن والی سڑک کے بائیں طر ف ایک بیری کا درخت تھا۔ پھر اس درخت سے توپ خانہ بازار بستی کی طر ف (سڑک کی چوڑائی سے زیادہ )کچی زمین تھی۔ اس کے بعد بستی کی آخری دو دوکانیں (دائیں طر ف کر یا نہ کی دوکان تھی دوسری بائیں لالہ فدو کا غریبانہ ہو ٹل تھا) جسے بیری کے درخت کے پا س کھڑے ہو کر دیکھیں تو سامنے پانچ چھے د یگچے نظر آتے۔ جہاں لالہ فدو کھڑا چمچہ چلا رہا ہوتا۔ ہوٹل کے اندر صر ف چار کر سی ایک ٹیبل کی کی گنجائش تھی۔ ہوٹل کے ساتھ تنگ گلی جس میں رہائشی تھے بازار والی چھوٹی سڑک کے متوازی تھی۔ اس تنگ گلی میں لالہ فدو کے بالا خانہ کے دروازہ کے سامنے صرف ایک تنور کی دوکان تھی جہاں سے چھ پیسوں میں ایک عدد نان ہر وقت مل سکتا تھا۔ ہوٹل کے اوپر بالا خانہ لالہ فد و کا تھا۔ داہنے کو نے والی کریانہ کی دکان اور لالے فدو کے ہوٹل دونوں کے درمیان لکڑی کا دروازہ بند نظر آیا۔ ہمیں کرایہ پر دینے کے لیے بالاخانہ دکھانے والے نے لکڑی کے اس بند دروازے کا تالا کھولا اور ہمیں ساتھ اندر لے گیا۔ دروازہ سے چند سیڑھیاں اوپر چڑھے تو دائیں طرف لکڑی کا دروازہ تھا۔ کنڈی کھولی دروازے سے اندر قدم رکھا تو بالکل سامنے والی دیوار کے ساتھ ایک بڑی موٹے مو ٹے پائے والی بان کی ایک چار پائی بچھی تھی گویا اس جگہ دو کمرے ہیں ایک بڑی چارپائی والا اور دوسرا اس سے پچھلا کمرہ یہی چھوٹا کمرہ اصل میں بیڈ روم تھا۔ اس کے اندر جانے کے لئے درمیانی دیوار میں دو عدد دروازے د ائیں بائیں تھے۔ جن کے اوپر گول محرابی شکل کی جگہ پر شیشے لگے ہوئے تھے۔ کچھ ٹوٹے ہوئے تھے۔ بیڈ روم کے اندر جائیں تو اندر دونوں دروازوں کے درمیاں جو دیوار کی جگہ تھی وہاں تقریبا ڈیڑھ مربع فٹ کی لوہے کی خالی تجوری پڑی ہو ئی تھی۔ چارپائی والے کمرے سے باہر کی طر ف والی چار پانچ لکڑی کی کھڑکیاں کھول دیں تو وہاں سے بیری کا درخت نظر آتا اور کچی زمین پر دن کو ہو ٹل سے کھانا کھانے و الے کمپٹرولر آفس سے بابو نظر آتے۔ جہاں تین چار پائیاں اور آٹھ کر سیاں دوعدد ٹیبل نظر آتے۔ اکثر بیری کے درخت کے نیچے کوئی نہ کوئی تانگہ کھڑا ہو تا کہ تا نگہ والا ہو ٹل سے کھانا کھا رہا ہے۔ جیسے سیڑھیوں سے اوپر آئے ایسے ہی پھر سیڑھیاں دوسری منزل کو جانے کے لیے تھیں۔ ان کے بعد اوپر بھی دائیں طر ف لکڑی کا دروازہ تھا کنڈی کھول کر اوپر گئے تو وہاں بھی آگے پیچھے فرش یعنی نچلے دو کمروں کی چھت تھی۔ پچھلے کمرے کا اینٹوں کا فر ش تھا وہاں جا نے کے لیے دیوار پرانے دروازوں کی چوکھٹ تھی۔ بغل میں ڈبے کچرا، ٹوٹی بوتلیں پڑی تھیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ پہلی منزل ہی رہا ئش کے لیے منا سب ہے۔ ہم پشاور شہر سے تین عدد بان کی چا رپائیاں بعوض 4 روپے فی چارپا ئی تانگہ کے ساتھ باندھ کر لے آئے۔ تینوں چارپائیاں بیڈ روم میں یوں بچھا دی گئیں کہ پا ﺅں تجوری کی جانب اور سر ہا نے پچھلی دیوار کی طر ف۔پچھلی دیوار میں دائیں طر ف ایک چھوٹی سی الماری بھی تھی۔ جو کہ صابر شاہ کے سرہا نے کی طرف تھی پھر ایک فٹ جگہ چھوڑ کر تاج الہٰی کی چار پا ئی تھی جس کے پاﺅں بالکل تجوری کے ساتھ تھے۔ تاج الہٰی کے ساتھ بائیں جا نب ایک فٹ جگہ چھوڑ کر دیوار کے ساتھ میر ی چارپائی تھی۔ ہمارے اپنے اپنے گرم بستر لحاف وغیرہ تھے۔ بالا خانہ میں بجلی نہ تھی ہم نے روشنی کے لئے ایک لیمپ خرید لیا تھا۔ لا لہ فدو کے ہو ٹل میں نا شتہ کھانا کھا تے، ادھا ر بھی چلتا تھا۔یہ ہمارا بالا خانہ کریانہ والی دوکان کی چھت پر تھا۔ ہم روزانہ بیڈ روم میں گپ شپ لگا کر لیمپ بجھا کر سو جایا کر تے تھے۔ دفتر سے سب کچھ ملا کر ہم میں سے ہر ایک کو تنخواہ کے 71 روپے 4آنے ماہانہ ملتے تھے۔ اپنے اوپر خرچ کرنے کے علا وہ گاﺅں میں گھر والوں کوہر ما ہ منی آرڈر بھی کر نا ہوتا تھا۔ ایک دن طے پایا کہ ہم آج را ت سے ہو ٹل کا کھانا نہیں کھائیں گے بلکہ اپنی ہانڈی پکا کر نان تنور سے منگوا لیا کریں گے۔ اس طر ح سے ہماری خاصی بچت ہو گی چنانچہ دیگچی ہانڈی گلاس پلیٹ وغیرہ خریدلی اور جلانے کو لکڑی بھی لے آئے۔ پکانے کے لیے جگہ اوپر چھت پر مٹی کے ڈھیر کی ڈھلوان پر انیٹیں جوڑ کر چولھا بنایا لکڑیاں مو ٹی چولھے میں مشکل سے جلتی تھیں دھواں دیتی تھیں۔ ہم کو بار بار پھو نکیں مارنی پڑتی تھیں۔ بہرحال ہنڈیا پک جا تی جو اگلی صبح کو بھی کھا لیتے تھے۔ ہنڈیا پکنے کے بعد ہم نیچے آکر موٹی چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے۔ اس طر ح سے ایک ہفتہ گزر گیا۔ ایک را ت لیمپ بجھا کر سونے لگے تو تا ج الہٰی نے سر گو شی کے انداز میں مجھ سے اندھیرے میں کہا یا ر آج دوسرا دن ہے کہ آدھی رات کو میری آنکھ اچانک کھل جا تی ہے اور اس تجو ری کے اندر سے لمبی لمبی پھونکیں مارنے کی آوازیں آتی ہیں۔ لمبی پھونکیں مارنے کے بعد بھڑک کی آو از جیسے شعلہ جل اٹھتا ہو، سنائی دیتی ہے۔ پھر اوپر چھت پر جیسے کوئی پوری قوت سے اینٹ مار رہا ہو۔ میں نے کہا کچھ نہیں کلمہ پڑھ کر سو جا ﺅ پھر سو گئے مگر خدا کا کرنا یہ کہ آدھی رات کو میری آنکھ کھل گئی۔ تجوری میں سے واقعی لمبی لمبی پھو نکوں کی آواز آتی پھر بھڑک کی آواز سنی اور پھر چھت پر پوری قوت سے کوئی اینٹ کی ضر بیں لگا رہا تھا یہ سلسلہ جاری تھا میں نے اپنا منہ لحاف کے اندر لے لیا۔ مارے ڈر کے گردن ماتھے پر پسینہ آرہا تھا جہاں بھی جسم پرکھجلی ہوتی تو اپنے ہا تھوں کو حرکت نہیں دے پا تا تھا پھر ساتھ والے تاج الہٰی کو سر گوشی میں نام لیکر پکارا جواب ملا میں جاگ رہا ہوں۔ اور ڈر رہا ہوں میں نے کہا صابر شاہ کو آواز دو تو اس نے ادھر صابر شاہ کہہ کر پکارا تو اندھیرے میں صابر شاہ کے منہ سے کانپتی ہوئی ”ہاں “ سنائی دی۔ اب تینوں جا گ رہے تھے اور پھونکوں کی آوازیں سن رہے تھے پھر جب چھت پر اینٹ کی ضربیں پڑیں تو صابر شاہ کہے جا تا تھا ” کوٹ او سورا، کو ٹ اوسورا “ پھر ہم نے کہا صابر شاہ لیمپ تو روشن کر۔ صابر شاہ نے تکیہ کے نیچے سے ما چس نکال کر سلگائی ہی تھی تو نظر کچھ نہ آیا البتہ یکا یک دونوں دروازوں میں خفیف سی حرکت اور گڑگڑاہٹ ہوئی۔ لیمپ روشن ہا تھ میں لئے ہم تینوں نے کمرہ سامنے والادیکھا وہاں سے سیڑھیاں چڑھ کر درواز ہ کھو ل کر چھت پر گئے۔ ڈھیروں مٹی کچرے میں خبیث شے نظر نہ آئی۔ پچھلے کمرے کا اندر سے فرش پر سکون تھا کوئی فا لتو اینٹ یا ضربوں کے نشانات نہ تھے پھر کنڈی لگا کر نیچے اپنے بیڈ روم میں آکر سوگئے۔ صبح اٹھے یہ نو مبر 1948 ءکا آخری اتوار تھا اور چھٹی کا روز تھا۔ محلے میں ایک خاکروب سے چھت پر سے مٹی کچرا صاف کرنے کی اجر ت طے کر کے اسے صفائی پر لگا یا وہ اس کا بیٹا اور اس کی بیوی سارا دن اوپر سے مٹی ٹوکریوں میں بھر بھر کے اوپر کی پھر نیچے تنگ سیڑھیوں سے اتر کر با ہر فاصلے پر پھینکتے رہے۔ پھر چھت کو پانی سے دھویا گیا۔ جس کے بعد پھر وہ شکایت نہ ہوئی۔ تا ج الہٰی کو طبی خرا بی کی بنا پر دفتر سے 1950 ءمیں فارغ کر دیا گیا اور 6 ماہ بعد گا ﺅں میں وفا ت پا گیا تھا۔ میرے ساتھ رہنے کو ایوب اور عبدالرحمن ایبٹ آباد کے دو نئے ساتھی آگئے تھے۔ جبکہ صابر شاہ نے قیام گاہ بدل لی اور اسی دفتر میں رہا۔ نومبر 1951 ءمیں اس دفتر سے میں مستعفی ہوکر 27 نو مبر 1951 ءسے روالپنڈی کے سی ایم اے آفس میں بھر تی ہو گیا وہاں سے پنشن لی ہے۔ آج پرانا ریکارڈ اپنا دیکھ رہا تھا تو پشاور تو پ خانہ بازار کے اس بالا خانہ کے ماہانہ کرایہ کی رسیدیں جو قاضی محمد شریف صاحب کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں برآمد ہوئی ہیں ان کو دیکھ کر اس بالا خانہ میں پیش آنے والا 58 سال پہلے کا سچا وا قعہ یا د آگیا جسے سپر د قلم کیا ہے۔ قاضی محمد شریف پشاور کمپٹرولر آفس میں ملازم تھے اور کسی ہندو کے اس بالا خانہ پر ان کا قبضہ تھا اور ہم سے کرایہ لیتے تھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں